حضرت شیخ المشائخ محبوب خلاق امام الطریقت
حضرت شاہ محمد آفاق
رحمتہ اللہ علیہ
حضرت شاہ محمد آفاق ۱۱۶۰ھ میں پیدا ہوئے۔ آپ حضرت خواجہ ضیااللہ نقشبندی رحمتہ اللہ علیہ کے حلقہ ارادت میں داخل ہوئے۔ کچھ عرصے کے بعد ہی حضرت خواجہ ضیااللہ رحمتہ اللہ علیہ نے آپ کو خرقہ ءخلافت سے نواز دیا۔ آپ خواجہ ضیااللہ رحمتہ اللہ علیہ کے خلفا میں ممتاز تھے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت شاہ محمد آفاق کو قبول عام عطا فرمایا اور شہرہ آفاق بنایا۔ دہلی سے کابل تک لوگوں نے آپ سے فیض اٹھایا۔ آپ کی بزرگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت شاہ غلام علی رحمتہ اللہ علیہ اپنے بعض مریدوں کو آپ کی خدمت بابرکت میں تعلیم و تکمیل کے لئےبھیجاکرتے تھے۔ یہ مرید آپ سے تربیت حاصل کرتے لیکن ان کی تکمیل اسی وقت پوری سمجھی جاتی جب آپ ان کو مکمل پاتے۔
جب آپ افغانستان تشریف لے گئے تو بہت سے لوگ آپ کے حلقہ ارادت میں شامل ہوگئے اور افغانستان کے بادشاہ شاہ زمان نے بھی بیعت کا شرف حاصل کیا۔ سلوک میں اپنے شیوخ کرام اور آبائے عظام کی طرح عالی ہمت و بلند حوصلہ اور سرگرم تھے۔ مولانا شاہ فضل الرحمن رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کے ہمارے حضرت دس ہزار مرتبہ درودشریف اور پچاس ہزار مرتبہ کلمہ پڑھتے تھے اور دس پارے قرآن مجید میں تہجد میں پڑھنے کا معمول تھا اور کچھ معلوم نہیں ہوتا تھا۔ دس پارے اتنی جلدی ختم ہوجاتے تھے کے ایک انجان آدمی سمجھے کہ صرف ایک ہی پارہ پڑھا ہوگا۔ حضرت مولانا شاہ فضل الرحمن رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت شاہ آفاق رحمتہ اللہ علیہ پانچوں وقت صلوٰۃ التسبیح پڑھتے تھے۔ مولانا صاحب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہمارے حضرت شاہ آفاق رحمتہ اللہ علیہ سب باتیں موافق سنت کے کرتے تھے۔ لیکن کسر نفسی سے ایسا فرماتے کہ ہم سے جو کوئی بات موافق سنت کےہو جا تی تو عرش سے ایسا فیض آتا کہ ہم تر بتر ہوجاتے۔
آپ نے تصور شیخ پر بہت زور دیا ہے آپ ذکر شش جہت کرتے تھے یعنی لطیفہ عالم۔ اس کے بعد نفی اثبات بجس دم با عدد طاق یعنی ایک دم میں اکیس بار پہنچاتے تھے۔ااپ کی توجہ کے چار طریقے تھے۔ نظری ۔ لسانی۔ قلبی اور روحی۔
حضرت مولانا شاہ فضل الرحمن رحمتہ اللہ علیہ فرماتے کہ دہلی میں ہمارے پاس پانچ روپے تھے ہم کو فکر تھی کہ وطن میں اپنی والدہ ماجدہ کو بھیج دیں۔حضرت شاہ آفاق رحمتہ اللہ علیہ نے مجھ سے پوچھا کیا فکر ہے ۔ میں نے عرض کیا تو آپ نے فریا کہ لاؤ ہم بھیج دیں گے۔ بعدازاں مہینہ کے بعد آپ نے خبر دی کہ تمہارے روپے پہنچ گئے لیکن ہم اسی وقت سمجھ گئے تھے کہ روپے پہنچ گئے ہیں۔ بعد ازاں جب ہم گھر پہنچے تو معلوم ہوا کہ اسی شب خود اعلیٰ حضرت نے دروازے پر پکار کر وہ روپے پردہ سے دیدیے اورہماری والدہ صاحبہ سے کہا کہ تمہارا بیٹا خیریت سے ہے۔
آپ ۷محرم ۱۲۵۱ھ کواس دار فانی سے رخصت ہوئے۔ آپ کا مزار شریف دہلی کی سبزی منڈی کے قریب مغلپورہ میں آٹے کی مل کے متصل ایک چھوٹی مسجد کے عقب میں ہے۔